16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام
قسط_نمبر_1
نواں_حصہ
اللہ تعالیٰ نے اجنہ کو وہ قوت و طاقت عطا کی ہے جس کے باعث وہ سخت سے سخت کام سر انجام دے لیتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب یہ ارادہ کیا کہ ہیکل کے ارد گرد ایک شہر بسایا جائے اور ہیکل کی تعمیر بھی از سرِ نو شایانِ شان طریقے سے کی جائے۔ تعمیر شہر اور ہیکل کے لیے بیش قیمت بھاری پتھروں کی ضرورت تھی۔ یہ کام جن ہی کر سکتے تھے۔ آمدو رفت کے وسائل کے بغیر وہ یہ بھاری اور قیمتی پتھر دور دراز سے اکٹھے کر کے لاتے اور تعمیر شہر اور ہیکل میں صرف کرتے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام فنِ تعمیر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ پر شکوہ عمارات، عظیم الشان قلعے اور عبادت گاہوں کے لیے ضروری تھا کہ ان کی پائداری و استحکام میں کوئی شبہ نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تعمیرات کی مضبوطی کے لیے گارے چونے کے بجائے پگھلی ہوئی دھات استعمال کرنا چاہتے تھے، لیکن اتنی بڑی تعداد میں دھات کہاں سے میسر آئے پھر اسے پگھلایا کیسے جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے آسانی پیدا کی اور انھیں پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے عطا کیے۔ والد کے ہاتھ میں لوہا موم ہو جاتا تھا اور فرزند کو پگھلے ہوئے تانبے کے ذخیرے مل گئے کہ تانبا پگھلانا بھی آسان نہیں اور پھر یہ گرم بھی نہ تھا، تاکہ آسانی سے اس سے برتن اور دوسرے آلات بنا لیے جائیں۔ یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان چشموں سے آگاہ کیا، جن کا تانبا پانی کی طرح مائع حالت میں تھا۔ اس سے پہلے یہ چشمے کسی کے علم میں نہ تھے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایات ہے کہ یہ چشمہ اتنی دور جاری ہوا، جس کی مسافت تین دن اور تین رات میں طے ہو سکے۔ یہ چشمے یمن میں تھے۔ حضرت عابدؓ سے روایات ہے کہ یمن سے جاری اس چشمے سے تین دن اور تین رات کی مسافت تک، پگھلا ہوا تانبا بہتا رہا۔
حضرت سلیمان کی فن تعمیر سے دلچسپی نے ان کی رعایا کو رہائشی سہولتیں مہیا کیں۔ آپ نے کئی شہر بنائے اور بسائے، چنانچہ تاریخ میں آپ کے آباد کیے گئے شہروں میں ملو، حاصور، مجدد، غرتر، بیت حوران، بعلوت اور تدمور کا ذکر ملتا ہے۔ وہ حفاظتی نقطہء نگاہ سے ہر شہر کی فصیل یا شہرپناہ ضرور بنواتے پھر ان عمارات پر نقاشی کا کام بھی دیکھنے کے قابل ہوتا، پوری پوری دیواروں پر شیروں، بیلوں اور فرشتوں کی تمثیلیں بنائی جاتیں، جو اپنی مثال آپ ہوتیں۔ ۲ ؎ ۴۔
حضرت قتادہؒ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بیت المقدس کی تعمیر کا حکم ہوا تو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ لوہے کی آواز سنی نہ جائے۔ آپ نے کئی تدابیر کیں جو ناکام رہیں۔ تعمیراتی شور اٹھتا ہی رہا۔ آپ نے سنا کہ سمندر میں ضحر نام کا شیطان ہے جو یہ ترکیب بتا سکتا ہے۔ آپ نے نقشِ سلیمان سے اس کے کندھوں کے درمیان مہر لگائی یہ بے بس ہو کر آپ کا حکم بجا لانے پر مجبور ہو گیا۔
مولوی چراغ علی اس کی توجیہ کسی اور انداز سے کرتے ہیں۔ ’’… جبل لبنان کے رہنے والے جن اس وجہ سے کہلائے کہ عربی میں جنان پہاڑ کو بھی کہتے ہیں … اس کے علاوہ جو چیز نظر نہ آئے اس کو بھی جن کہتے ہیں اور چونکہ یہ سب آدمی بنی اسرائیل سے غائب لبنان کے پہاڑ پر لکڑی اور پتھر کا کام کرتے تھے اور وہاں سے بنے بنائے پتھر اور ترشی ہوئی لکڑیاں بھیجتے تھے اور بیت القدس کے مقام پر نہ ہتھوڑے کی آواز سنی گئی اور نہ پھاؤڑے کی، اس لیے بھی ان کو جن کہنا درست ہوا۔ ‘‘ ۴۳؎
کہا جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان کے عہد میں انھی کی زیرِ نگرانی ہوئی، لیکن یہ درست نہیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی اور عرصۂ دراز کے بعد جب ان کے نشان بھی معدوم ہو گئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے خدا کے حکم سے مسجد اور شہر کو از سرِ نو بسایا۔ ’’ایک اور روایت کے مطابق بیت المقدس کی تعمیر بھی حضرت ابراہیم کے ذریعے بیت اللہ کی تعمیر سے چالیس سال بعد ہوئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو بیت المقدس کی تعمیر کی یہ بھی بیت اللہ کی طرح نئی اور ابتدائی تعمیر نہ تھی۔ بلکہ سلیمان علیہ السلام نے بنائے ابراہیمی پر اس کی تجدید کی ہے‘‘۔ ۴۴ ؎
یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ کو ہزاروں صدیوں بعد، جب اس کے نشانات غائب ہو چکے تھے، اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے دوبارہ بنایا اور بسایا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ان پر شکوہ عمارات کی تعمیر میں سرکش اور باغی جن بے چون و چرا ہمہ وقت مصروف عمل رہتے۔
ترجمہ: ’’اور شیطان (سرکش جنوں ) میں سے ہم نے مسخر کر دیے جو اس سلیمان علیہ السلام کے لیے سمندروں میں غوطے مارتے یعنی بیش قیمت بحری اشیا نکالتے اور اس کے علاوہ اور بہت سے کام انجام دیتے اور ہم ان کے لیے نگہبان و نگراں تھے۔ ‘‘ ۴۵ ؎
حضرت سلیمان علیہ السلام جو کام چاہتے ان جنوں سے لیتے، جو جن اپنی سرکشی کی عادت کی بنا پر ان کا حکم ماننے سے انکار کرتا فوراً آگ میں بھسم کر دیا جاتا۔ بے شک جنات آگ سے بنے ہیں، مگر خالص اور تیز آگ انھیں بھی جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
ترجمہ: ’’ اور جنوں میں سے وہ تھے جو اس کے سامنے خدمات انجام دیتے۔ اس کے پروردگار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کرے۔ ہم اس کو دوزخ کا عذاب چکھائیں گے۔ وہ اس کے لیے بتاتے جو کچھ وہ (سلیمان علیہ السلام ) چاہتا تھا۔ قلعوں کی تعمیر، ہتھیار اور تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوض کی مانند تھے اور بڑی بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں۔ اے آلِ داؤد علیہ السلام! شکر گزاری کے کام کرو۔ میرے بندوں میں سے تم سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘ ۴۶ ؎
حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر بہت بڑا تھا۔ جن بہت بڑے حوض تعمیر کرتے جس میں پانی موجود رہتا۔ پھر بڑی بڑی دیگیں بناتے جو اتنی وزنی تھیں کہ ہلائی نہ جا سکیں، ممکن ہے کہ یہ دیگیں اور چولھے پتھروں، چٹانوں کو تراش کر جن بناتے ہوں تاکہ ان میں اتنی بڑی فوج کے لیے کھانا تیار کیا جا سکے۔
آلِ داؤد علیہ السلام قولاً اور فعلاً دونوں طرح اللہ کا شکر ادا کرتی۔ یہ حضرت داؤد علیہ السلام ہی کا حصہ تھا کہ انھوں نے اپنے اہل و عیال میں نفل نماز کی تقسیم اس طرح کی تھی کہ ان کے گھر میں ہر لمحہ کوئی نہ کوئی فرد مصروفِ عبادت ہوتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام دونوں کو ہی خدا نے اپنے بہت سے انعامات سے نوازا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت سخت اجسام کو موم کر دیا جیسے کہ پہاڑ اور لوہا، جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ان لطیف اجسام کو مفتوح کر دیا جو دکھائی بھی نہ دے سکیں۔ مثلاً ہوا، جنات وغیرہ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جہاں حضرت داؤد علیہ السلام کے قائم کردہ علمی، مذہبی، معاشرتی احکام و روایات کی پاسداری کی اور انھیں آگے بڑھایا وہیں ان کی تشنہ خواہشات کی تکمیل بھی کی اور ان میں سب سے اہم بیت المقدّس کی تعمیر کی خواہش تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنے لیے ایک گھر بنانے کا حکم دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو وحی نازل ہوئی کہ تم نے میرے گھر سے پہلے اپنا گھر بنا لیا۔ آپ نے فوراً ہی تعمیر مسجد کے لیے کام شروع کر دیا، بنیادیں بھری گئیں۔ دیواریں کھڑی کی گئیں لیکن جب تمام دیواریں مکمل ہو گئیں تو اچانک کھڑی دیواروں کا ایک تہائی حصہ گر گیا۔ آپ نے اللہ سے فریاد کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ مسجد کی تعمیر تیرے نصیب میں نہیں۔ آپ غمزدہ ہوئے تو یہ نوید دی گئی کہ اسے تیرا بیٹا سلیمان علیہ السلام مکمل کرے گا۔
جاری ہے ..
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
fiza Tanvi
14-Jan-2022 04:46 PM
Good
Reply
Dr. SAGHEER AHMAD SIDDIQUI
26-Dec-2021 12:44 AM
Qabile mubarak bad
Reply